Saturday, 16 May 2009

مینگورہ سے کراچی تک

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

اسی سالہ اختر خان مینگورہ کے علاقے رحیم آباد سے آئے ہیں، ان کے ساتھ خاندان کے 15 افراد نے ہجرت کی
کراچی کے پسماندہ نواحی علاقے قائم خانی کالونی بلدیہ ٹاؤن میں موزا خان اپنے خاندان کے پچیس افراد کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں۔
ان کے گھر میں پچھلے دنوں کچھ مہمان آئے ہیں۔ عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان خالی پیٹ، پیدل سفر کرتے، ٹرکوں اور بسوں سے لفٹ لے کر۔
ان میں ایک تو ان کے بہنوئی اختر خان کا خاندان ہے اور دوسرا ان کے چھوٹے بھائی زوتا خان کا۔
یہ مہمان میلوں دور واقع وادی سوات کے علاقے مینگورہ سے ہجرت کر کے کراچی آئے ہیں۔ وہ بھی ان لاکھوں لوگوں میں سے ہیں جو اپنے آبائی علاقوں میں جاری لڑائی اور بدامنی کی وجہ سے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اختر خان مینگورہ کے علاقے رحیم آباد کے رہنے والے ہیں اور اسی سال کے ہوچکے ہیں۔ ان کے ساتھ پندرہ افراد نے ہجرت کی جن میں بیٹے، بیٹیاں اور پوتے پوتیاں بھی شامل ہیں۔
ہمارے ساتھ چھوٹے بچے تھے اور کھانے کے لیے روٹی بھی نہیں تھی۔ بیماروں کے علاج کا بھی کوئی حال نہیں تھا۔ میرا بیوی سخت بیمار ہے، خود چل بھی نہیں سکتی تھی۔ اسے کمر پر بٹھا کر پیدل چلتے رہے۔ ایک دن پورا ہم نے پیدل سفر کیا۔ بٹ خیلہ تک پیدل آئے پھر ایک ٹرک میں بیٹھ کر نوشہرہ پہنچے اور اس کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر بھوکے پیاسے کراچی آئے۔
اختر خان
'انہوں نے بتایا کہ ہمارے ساتھ چھوٹے بچے تھے اور کھانے کے لیے روٹی بھی نہیں تھی۔ بیماروں کے علاج کا بھی کوئی حال نہیں تھا۔‘یہ کہتے بوڑھے اختر خان نے اپنی ساتھ والی چارپائی پر بیٹھی بوڑھی خاتون کی طرف اشارہ کیا۔ 'یہ میرا بیوی ہے، سعیدہ جان، یہ سخت بیمار ہے، خود چل بھی نہیں سکتی تھی۔ اسے کمر پر بٹھا کر پیدل چلتے رہے۔ ایک دن پورا ہم نے پیدل سفر کیا۔ بٹ خیلہ تک پیدل آئے پھر ایک ٹرک میں بیٹھ کر نوشہرہ پہنچے اور اس کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر بھوکے پیاسے کراچی آئے۔‘
اختر خان کی اہلیہ سیدہ جان صرف پشتو بول سکتی ہیں۔ ان کے بھائی اور میزبان موزا خان نے مجھے ان کی اور انہیں میری بات سمجھانے میں مدد کی۔ سیدہ جان کا کہنا تھا کہ اسی سالہ زندگی میں اتنا برا وقت کبھی نہیں دیکھا۔ کراچی پہنچنے پر انہیں ایک فکر یہ بھی تھی کہ ان کی مرغیوں اور بکریوں کا کیا بنے گا۔

منگورہ سے آنے والے اس خاندان میں کئی چوٹے بچے شامل ہیں
’جب مسجدوں میں اعلان ہوئے تو ہم سب مرد، عورتیں بچے بوڑھے اور جوان اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔ سارا گاؤں خالی ہوگیا۔ مارٹر بم گر رہے تھے جس کی وجہ سے گھر تباہ ہو گئے۔ مرغیوں کے لیے میں نے گھر میں دانہ پھیلا دیا اور نلکا کھلا چھوڑ دیا تاکہ انہیں پانی ملتا رہے۔ بکریوں کو گھر سے باہر چھوڑ دیا تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔ گھر میں تالہ بھی نہیں لگا سکے۔‘ موزا خان کے چھوٹے بھائی زوتا خان اپنے خاندان کے سات افراد کے ساتھ کراچی پہنچے ہیں۔ ان کے بقول زندگی کا یہ مشکل ترین سفر تھا۔
'گھر ہم لوگ کا تباہ ہوگیا تھا۔ کوئی چیز ہم نہیں لے سکے، سب کچھ اللہ کے حوالے کر کے آئے ہیں۔ مینگورہ سے بٹ خیلہ تک جب پیدل آرہے تھے تو بارش ہورہا تھا جس سے چل بھی نہیں سکتا تھا۔ کھانے کا کوئی چیز نہیں تھا۔ بس اللہ ہی تھا ہمارے ساتھ۔‘

سعیدہ بی بی کوان کے خاندان والے کمر پر بٹھا کر کراچی لائے ہیں
اختر خان کے بیٹے اکرام اللہ نے بتایا کہ وہ مینگورہ میں رکشہ چلاتے تھے اور کراچی آنے کے بعد پچھلے دو دنوں سے وہ روزگار کی تلاش میں ہیں لیکن انہیں کوئی مزدوری دینے پر بھی تیار نہیں۔
'ڈرائیونگ لائسنس بھی گھر بھول آیا ہوں اس لیے یہاں رکشہ بھی نہیں چلا سکتا۔‘
اکرام اللہ کے بیٹے دس سالہ سعید کریم زندگی میں پہلی بار کراچی آئے ہیں لیکن انہیں اپنا گھر اور سکول دونوں یاد آرہے ہیں اور کسی پر بہت زیادہ غصہ بھی۔
'ہمیں طالب پر غصہ آتا ہے۔ میں تیسری جماعت سے چوتھی میں گیا تھا (انہوں نے) مارٹر پھینکا جو سکول کا پاس گرا، طالبان نے استاد کو بلا کر کہا کہ سکول بند کردے جس پر سکول بند ہوگیا اور استاد بھی بھاگ گیا۔‘

دس سالہ سعید کو طالبان پر غصہ ہے کہ انہوں نے اس کا سکول بند کرایا تھا
ہجرت کرنے والے دونوں خاندانوں کو اپنے گھر میں پناہ دینے والے موزا خان آنے والے دنوں کے بارے میں فکرمند ہیں۔'پچیس افراد ہمارا اپنا فیملی میں ہے اور اسکے علاوہ یہ جو مہمان آئے ہیں اس پریشانی کی وجہ سے وہ تئیس لوگ ہے۔ جب تک ہم سے ہوسکا ہم گزارا کرلیں گے جب بس سے باہر ہوگیا تو پھر روڈوں پر نکل کر چیخیں گے، چِلائیں گے۔ حکومت کو اپیل کرتا ہوں کہ خدا کے لیے امن قائم کرے تاکہ یہ لوگ عزت کے ساتھ واپس جاسکے۔‘کراچی میں رہائش پذیر سواتیوں کی تنظیم سوات قومی اتحاد کے رہنما اسحاق سیٹھی نے بتایا کہ سوات میں امن معاہدہ ہونے سے پہلے لاکھوں لوگ کراچی آئے ہیں لیکن اب کی بار بہت کم خاندان کراچی پہنچے ہیں جنہوں نے اپنے رشتے داروں کے گھروں پر پناہ لی ہے۔
ان کے مطابق امن معاہدے سے پہلے ہونے والی نقل مکانی کے دوران سوات اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے لاکھوں لوگ کراچی آئے تھے۔
پاکستان کے شہروں میں سب سے بڑی پختون آبادی کراچی میں ہے اور بڑی تعداد میں کراچی آمد کی ایک وجہ اسحاق سیٹھی کے مطابق یہ ہے کہ اس آبادی میں نصف سے زیادہ تعداد سوات کے لوگوں کی ہے۔

No comments: